وہ بظاھر فقیر بنتا ہے
اس کی شہ پر وزیر بنتا ہے
آدمی ہی سے عبرتیں بھی ہیں
آدمی ہی نظیر بنتا ہے
چار دن کا یہ کھیل تھوڑی ہے
کوئی صدیوں میں میر بنتا ہے
وہ نگاہیں کہاں سے لاتے ہو
جن سے نظروں کا تیر بنتا ہے
قید کرتا ہے وہ ہمیں خود ہی
اور خود ہی اسیر بنتا ہے
اور سب یوں ہی فوت ہوتے ہیں
بس پیادہ وزیر بنتا ہے
سب کی نظریں اتار لیتا ہے
تب کوئی بے نظیر بنتا ہے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment