چاند ستارے مٹھی میں تھے سورج سے یارانہ تھا
کیا دن تھے جب خواب نگر میں اپنا آنا جانا تھا
اک جادو سا جیسے میری ہر دھڑکن میں اترا تھا
مجھکو خود معلوم نہیں میں کیوں اتنا دیوانہ تھا
جانے کیسا شخص تھا باتیں دیوانوں سی کرتا تھا
خوابیدہ آنکھیں تھیں لب پر پریوں کا افسانہ تھا
سب مجھکو سودائی کہ کر تجھکو رسوا کرتے تھے
نظریں میری اور تھیں لیکن تیری اور نشانہ تھا
ایک کہانی جسمیں شاید سب کچھ تے تھا پہلے سے
ایک فسانہ جسمیں سب کچھ ملکر بھی کھو جانا تھا
تجھے مکمّل کرنا تھا اک حصّہ میرے قصّے کا
مجھکو تیرے افسانے میں اک کردار نبھانا تھا
بھیڈ سے بہار آکر دیکھا تھا دنیا کے میلے کو
ساری چہل پہل کے پیچھے جاںلیوا ویرانہ تھا
کب تک میں سمجھاتا اپنے دل کی اک اک دھڑکن کو
تیری بستی میں تو ہر اک حسرت پر جرمانہ تھا
آخر تھک کر چھوڈ دیا ہستی کی الجھی گتھی کو
سلجھانے کی کوشش کرنا اور اسے الجھانا تھا
منش شکلا
No comments:
Post a Comment