اک خواب چھن سے ٹوٹ کے آنکھوں میں گڈ گیا
اتنا ہنسے کہ چیخ کے رونا بھی پڑ گیا
یہ کسنے اپنی ٹیس ورق پر اتار دی
یہ کون اپنے دل کو سیاہی سے جڈ گیا
جب تک ہمارے نام سے واقف ہوا جہاں
تب تک ہمارے نام کا پتھر اکھڑ گیا
لہروں کا شور تھم گیا طوفان سو گئے
کشتی کے ڈوبتے ہی سمندر اجڈ گیا
اب تو خیال یار سے ہوتا ہے خوف سا
چہرہ کسی کی یاد کا کتنا بگڑ گیا
کر تو لیا ہے درد کی لہروں کا سامنا
لیکن ہمارے ظرف کا بخیہ ادھڑ گیا
اسکو ٹھہر کے دیکھتے حسرت ہی رہ گیئ
وہ دفعتاً ملا تھا اچانک بچھڑ گیا
منش شکلا
No comments:
Post a Comment