ہمنے اپنے غم کو دہرایا نہیں
وہ پرانا گیت پھر گایا نہیں
جسکو پانے کی دعا مانگا کے
وہ ملا بھی تو اسے پایا نہیں
جسم کی سرحد سے باھر آ گیی
اب محبّت پر کوئی سایا نہیں
یہ تو ہے اسسے بچھڑ کر پھر کبھی
دل کسی پتھر سے ٹکرایا نہیں
اک دفعہ آے تھے ہم بھی ہوش میں
پھر کبھی ویسا نشہ چھایا نہیں
بعد مدّت کے ملا تھا آج وہ
آج ہمنے دل کو سمجھایا نہیں
اسکے دامن کی ہوا کیا تھم گیئ
اب کے موسم خوشبوئیں لایا نہیں
چارہگر کی کیا کہیں ہمنے کبھی
خود کو اپنا زخم دکھلایا نہیں
آج کتنی مدّتوں کے بعد پھر
دل اکیلے میں بھی گھبرایا نہیں
منش شکلا
No comments:
Post a Comment