ہر کسی کے سامنے تشنلابی کھلتی نہیں
اک سمندر کے سوا سبسے ندی کھلتی نہیں
خودنمائی کے لئے اک آئینہ بھی چاہیے
جھیل پہ پڑنے سے پہلے چاندنی کھلتی نہیں
شام کے ڈھلنے سے پہلے یہ چراغاں کس لئے
تیرگی گہری نہ ہو تو روشنی کھلتی نہیں
دل کے رشتوں میں ضروری ہیں بہت بیباکیاں
ہو تکلّف درمیاں تو دوستی کھلتی نہیں
اب ہمارے بیچ دروازہ نہیں دیوار ہے
اور کوئی دیوار دستک سے کبھی کھلتی نہیں
ہر نیا دن لے کے آتا ہے نیی حیرانیاں
آخری سانسوں تلک یہ زندگی کھلتی نہیں
ہم جنوں کی سرحدیں بھی پار کر اے مگر
آگاہی کی راہ اسکے بعد بھی کھلتی نہیں
منش شکلا
No comments:
Post a Comment