بخت کی نا فرمانی بھی تو ہو سکتا ہے
عزم ترا نادانی بھی تو ہو سکتا ہے
گڈھتا ہے ہم جیسے مٹی کے پتلے
اپنا خالق فانی بھی تو ہو سکتا ہے
اتنا پاکیزہ رہنا بھی ٹھیک ہے کیا
عشق ذرا انسانی بھی تو ہو سکتا ہے
مانا جسم کی اپنی حاجت ہے پھر بھی
یہ مسلہ روحانی بھی تو ہو سکتا ہے
کیا کشکول بدستی سب پر لازم ہے
اک شاعر سلطانی بھی تو ہو سکتا ہے
میں اس کا دیوانہ بھی تو بن سکتی ہوں
وہ میری دیوانی بھی تو ہو سکتا ہے
اچھا خاصا لہجہ بخشا ہے رب نے
یہ لہجہ لاثانی بھی تو ہو سکتا ہے
کیا اتنے دن زندہ رہنا لازم ہے
مرنا با آسانی بھی تو ہو سکتا ہے
مجرم پتھر کا ہو جاۓ ٹھیک مگر
شرم سے پانی پانی بھی تو ہو سکتا ہے
منیش
No comments:
Post a Comment